Imam Hussain as ka Makkah men khitab

 مکہ میں امام حسین علیہ السلام کا خطاب۔


   ذی الحج کے اوائل میں جبکہ ایامِ حج کے نزدیک ہونے کیوجہ سے حجاج قافلہ در قافلہ مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ یزید کے حکم پر(عمروبن سعیدبن عاص) بظاہر امیرِحج کےطورپرلیکن درحقیقت کسی انتہائی خطرناک مقصد پر مکہ آیا ہے۔ اسے یزید کیطرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ جہاں بھی اور سر زمینِ مکہ کےجس مقام پر بھی ممکن دیکھےحسین ابنِ علی کو قتل کردے۔ 

لہٰزا خانہ کعبہ اور مکہ مکرمہ کےتقدس کو محفوظ رکھنے کی خاطر امام عالی مقام نے مراسمِ حج میں شرکت کئے بغیر اور اعمالِ حج کو عمرۂ مفردہ میں تبدیل کرکے آٹھ ذی الحج بروز منگل مکہ سے عراق کیجانب روانگی کا فیصلہ کیا۔ 

عراق روانگی سے قبل امام علیہ السلام نے خاندانِ بنی ہاشم اور اپنے کچھ حامیوں کے سامنے،جومکہ میں قیام کے دوران آپکے ساتھ ہو لئے تھے، یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

" تمام تعریفیں اللّٰہ کےلئےہیں۔ وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ اللّٰہ کےسواکوئی قدرت کارگر نہیں۔ درودوسلام اللّٰہ کے رسول پر۔ 

انسانوں کےلئےموت اسی طرح لازم کر دی گئی ہے جس طرح دوشیزہ کے گلے پر گردن بند کا اثرلازم ہوتاہے۔ مجھے اپنے اسلاف اوراجدادسےملاقات کا اتناہی اشتیاق ہے جتناشوق یعقوب علیہ السلام کویوسف علیہ السلام سے ملنے کا تھا۔ میری قتل گاہ معین ہو چکی ہے جہاں میں پہنچ کر رہوں گا۔ گویا میں خود دیکھ رہا ہوں کہ صحرا اور بیابان کے بھیڑئیے(یزیدی لشکر کی جانب اشارہ) سرزمینِ کربلا اور نواویس کے درمیان میرے جسم کے ٹکڑےٹکڑے کرکےاپنےبھوکےپیٹ اور خالی تھیلےبھر رہے ہیں۔ خدا کے لکھے سے فرار ممکن نہیں۔ جس بات سے اللّٰہ راضی ہوتا ہے ہم اہلِ بیت بھی اسی سے راضی ہوتے ہیں۔ ہم اس کے امتحان اور آزمائش پر صبر کریں گے اور وہ ہمیں صابروں کااجرعنایت فرمائےگا۔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جگر گوشوں میں جدائی ممکن نہیں، بلکہ بہشتِ بریں میں سب ساتھ اکٹھےکئے جائیں گے، جنہیں دیکھ کر آنحضرت کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور آنحضوران سے کئے ہوئے وعدےکو پورا کریں گے۔ 

جان لوکہ تم میں سےجوبھی ہمارےاوپراپناخون نچھاورکرناچاہتاہو، اوراللّٰہ سے ملاقات کےلئے تیارہو، وہ ہمارے ساتھ چلے۔ میں انشااللّٰہ کل صبح روانہ ہو جاؤں گا۔ "

کتاب۔ "خطبات، فرمودات ومکتوباتِ حسین ابنِ علی مدینہ تا کربلا"

صفحہ نمبر 85

خطبہ نمبر 16

Hazrat Abuzar Ghaffari ra

 حُکم یہ تھا کہ ابوذر کو الوداع کوئی نہ کرے مگر علی علیہ السلام کہاں رُکنے والے تھے اپنے عاشق سے آخری ملاقات کو چل دئیے ساتھ میں حسنین کریمین اور چند اصحاب کو بھی لے گئے۔ 

مروان بھی کہاں باز آنے والا تھا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں علی علیہ السلام کو روکنے چل دیا۔ جلال علوی نے وہ کی کہ روتا ہوا اپنے آقا کو شکایت لگانے پہنچ گیا۔ 

ادھر علی ابوذر کو رُخصت کر رہے ہیں کیا قیامت کا منظر ہوگا کہ ابوذر صحرائے ربذہ میں اپنی آخری آرام گاہ کیطرف گامزن ہیں۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام حضرت ابوذر غفاری رض سے مخاطب ہوئے۔ 


"اے ابوذر! تمہارا غم و غصہ خدا کی خاطر تھا، لہذا اسی ذات پر امید رکھو۔ یہ لوگ اپنی دنیا میں تم سے خوفزدہ ہیں، اور تم کو اپنے دین کی خاطر ان سے ڈر ہے۔ لہذا جس چیز کی خاطر وہ تم سے ڈرتے ہیں، وہ چیز ان کے لئے چھوڑ دو۔ اور جس وجہ سے تم ان سے ڈرتے ہو اس کو ان سے دور لے جاؤ۔ تم نے جس کام سے انکو روکا ہے، انکو اسکی کتنی ضرورت ہے، اور تم کتنے بے نیاز ہو اس سے جس سے وہ تمہیں روکتے ہیں۔ تمہیں بہت جلد پتا چل جائے گا کہ کل اس کا نفع کس کو ملے گا، اور جس کو اس کا زیادہ نقصان ملے گا، وہ کون ہو گا۔ اگر آسمانوں اور زمین کو کسی انسان کے لئے بند کیا جائے، لیکن وہ خدا سے ڈرے، اس کے لئے وہ دونوں کھلے ہیں۔ خدا خود تمہارا مونس اور مددگار ہے، اور سوائے باطل کے تمہیں نہیں ڈرا سکے گا۔ اگر تم ان کی دنیا کو قبول کرتے وہ تم سے دوستی کرتے، اور اگر ان کی خاطر قرض لیتے تو ان کو سکون ملتا۔"


نہج البلاغہ 

5ذوالحج شھادت حضرت ابوذر غفاری رض

توصیف اسلم الحسینی امرہ کلاں

امام علی نقی علیہ السلام کا درندوں کے پنجرے میں جانا

 


فضیلت امام علی نقی علیہ السلام کا ایک واقعہ

مروج الزہب کی دوسری جلد میں مسعودی کا بیان ہے کہ متوکل کے زمانے میں ایک عورت نے دعویٰ کیا کہ وہ امام علیابن ابی طالب علیہ السلام کی بیٹی زینب سلام اللّٰہ علیہا ہے اور اللّٰہ نے اسے طول عمر دیدی ہے۔ جب اس کو متوکلکے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے امام علی نقی علیہ السلام کو وہاں بلا لیا۔ چنانچہ آپ وہاں تشریف لائے اور آپ نےاس عورت سے فرمایا کہ چونکہ درندے بنی فاطمہ سلام اللّٰہ علیہا کا گوشت نہیں کھاتے اس لئے تم درندوں کے پنجرےمیں داخل ہو جاؤ تاکہ تمہارے سچ اور جھوٹ کا پتا چل جائے مگر وہ ڈر گئی اور ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوئی۔ تبامام ع اپنی جگہ سے اٹھے اور درندوں کے بیچوں بیچ جاکر کھڑے ہوئے۔ اس وقت وہ درندے آپ کے قریب آگئے اور انہوںنے آپ کے کپڑے چاٹنا شروع کر دئیے۔ جب اس عورت نے یہ منظر دیکھا تو وہ اپنے دعوے سے دستبردار ہوگئی۔ 
کتاب۔ سیرت ائمہ اہلبیت جلد دوم(صفحہ 467/468)
مصنف۔ علامہ سید ہاشم معروف حسنی

علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ اور محب

:جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ روایت نقل کرتے ہیں

جس وقت ہم پیغمبر اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تھے تو آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف توجہ کی اور فرمایا: اے ابوالحسن یہ جبرئیل ہیں فرما رہے ہیں کہ بے شک خدا تعالٰی نے آپ کے شیعوں اور محبوں کو سات خصوصیات عطا کی ہیں۔
١.  موت کے وقت آسانی
٢. وحشت کے وقت (قبر میں) اُنس و محبت
٣. ظلمت و تاریکی(قبر) میں نور
٤. نزع کے وقت امن
٥. میزان کے وقت عدالت
٦. پلِ صراط سے عبور
٧. لوگوں سے پہلے جنت میں داخلہ اس حال میں کہ ان کا نور ان کے سامنے ہوگا۔ 

:دوسری روایت میں ذکر ہے کہ پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا

میری اور میرے اہل بیت علیہم السلام کی محبت سات اہم مقامات پر کام آئے گی
١. موت کے وقت
٢. قبر میں
٣. قبر سے اٹھ جانے کے وقت
٤. جب نامہ اعمال ہاتھوں میں دئیے جائیں گے
٥. حساب کے وقت
٦. جب نامۂ اعمال میزان میں تولے جائیں گے
٧. پلِ صراط سے عبور کرتے وقت
حوالہ: بحار الانوار جلد۲۷، ص١٥٦
#Hadith #fazail-e-Ahlebait #Muhabbat-e-Ali(as)

ایک یہودی نوجوان کا اسلام قبول کرنا

ایمان والو الله سے ڈرو جو ڈرنے کا حق ہےاور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہو جاؤ۔ سورہ آل عمران آیت۱۰۲
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں
ایک یہودی نوجوان اکثر رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں آیا کرتا تھا، پیغمبر اکرم بھی اس کی آمد و رفت پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تو اسے کسی کام سے بھیج دیتے تھے، یا اس کے ہاتھوں قوم یہود کو خط بھیج دیتے۔ 
ایک مرتبہ وہ چند روز تک نہ آیا، پیغمبر اکرم ص نے اس کے بارے میں سوال کیا، تو ایک شخص نے کہا: میں نے اس کو بہت شدید بیماری کی حالت میں دیکھا ہے شاید یہ اس کا آخری دن ہو، یہ سن کر پیغمبر اکرم چند اصحاب کے ساتھ اسکی عیادت کے لئے تشریف لےگئے، وہ کوئی گفتگو نہیں کر سکتا تھا لیکن جب آنحضور وہاں پہنچے تو وہ آپ کو جواب دینے لگا چنانچہ رسول اکرم ص نے اس جوان کو آواز دی، اس جوان نے آنکھیں کھولیں اور کہا۔ لبیک یا ابالقاسم! آنحضرت نے فرمایا کہو: “ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ”۔
جیسے ہی اس نوجوان کی نظر اپنے باپ کی ترچھی نگاہوں پر پڑی، وہ کچھ نہ کر سکا، پیغمبر اکرم نے اس کو دوبارہ شھادتین کی دعوت دی، اس مرتبہ بھی اپنے باپ کی ترچھی نگاہوں کو دیکھ کر خاموش رہا، رسول خدا نے تیسری مرتبہ اسے یہودیت سے توبہ کرنے اور شھادتین قبول کرنے کی دعوت دی، اس جوان نے ایک بار پھر اپنے باپ کے چہرے پر نظر ڈالی، اس وقت پیغمبر اکرم نے فرمایا: اگر تیری مرضی ہے تو شھادتین قبول کر لے ورنہ خاموش رہ، اس وقت جوان نے اپنے باپ پر توجہ کئے بغیر اپنی مرضی سے شھادتین کہہ دیں اور اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ پیغمبر اکرم نے اس جوان کے باپ سے فرمایا۔ اس جوان کے لاشے کو ہمارے حوالے کر دو، اور پھر اپنے اصحاب سے فرمایا۔ اسے غسل دو، کفن پہناؤ اور میرے پاس لاؤ تاکہ میں اس پر نماز پڑھوں، اس کے بعد اس یہودی کے گھر سے نکل آئے۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کہتے جا رہے تھے: خدایا تیرا شکر ہے کہ آج تو نے میرے ذریعے ایک نوجوان کو آتش جہنم سے نجات دیدی۔ 
حوالہ: بحار الانوار، جلد ۶، صفحہ ۲۶ 


جنگ صفین میں ایک نوجوان کا واقعہ

ہاشم مرقال کہتے ہیں:
جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کیلئے چند قاریان قرآن شریک تھے۔ حاکم شام کی طرف سے طائفہ “غسان” کا ایک جوان میدان میں آیا، اس نے رجز پڑھا اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں جسارت کرتے ہوئے مقابلہ کیلئے للکارہ، مجھے بہت زیادہ غصہ آیا کہ حاکم شام کے غلط پرپیگنڈے نے اس طرح کے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے، واقعاً میرا دل کباب ہو گیا، میں نے میدان کا رخ کیا، اور اس غافل جوان سے کہا: اے جوان! جو کچھ بھی تمہاری زبان سے نکلتا ہے، خدا کی بارگاہ میں اس کا حساب و کتاب ہوگا، اگر خداوند عالم نے تجھ سے پوچھ لیا: 
علی بن ابی طالب علیہ السلام سے جنگ کیوں کی؟ تو کیا جواب دے گا؟
 چنانچہ اس جوان نے کہا: میں خداکی بارگاہ میں دلیل شرعی رکھتا ہوں، کیونکہ میری علی ابن ابی طالب سے جنگ بے نمازی ہونے کیوجہ سے ہے
ہاشم مرقال کہتے ہیں: میں نے اس کے سامنے حقیقت بیان کی، حاکم شام کی مکاری اور چال بازیوں کو واضح کیا۔ جیسے ہی اس نے یہ سب کچھ سنا، اس نے خدا کی بارگاہ میں استغفار کیا، اور توبہ کی اور حق کا دفاع کرنے کیلئے حاکم شام کے لشکر سے جنگ کے لئے نکل گیا۔ 
حوالہ۔ توبہ آغوش رحمت ص۱۴۰